جستجو حیات

کافی دن سے دماغ کی کھڑکی پر کوئی دستک دے رہا تھا میں نے کھڑکی کھول ہی لی اور کہا ہاں بولو کیا بات ہے.تو لگا شکوہ کرنے کہ مجھے اس دنیا میں کیوں لایا گیا.کیا میرے بغیر یہ دنیا نہیں چل سکتی تھی. ایک دفعہ تو مجھے اسکے شکوہ پر حیرانگی بھی ہوئی اور میں خود سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اس کو دنیا میں لانے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے. بہت سوچا اور اس ہی سوچ میں دماغ میں لگی گہرئیں کھلنے لگی اور اس دنیا کے ان پہلوؤں پر نظر پڑنا شروع ہوئی جس پر شائد سب کی نظر تو پڑی لیکن انہوں نے اس کو توجہ نہ دی اور اپنی زندگی میں مصروف رہے اور ایسے ہی واپس اپنے خالق حقیقی سے جا ملے.آہستہ آہستہ میرے دماغ میں لگی گہرئیں ڈھلی ہوئی اور مجھے اور سوچنے کا موقع ملا.پھر میرا دھیان اپنے دماغ کی کھڑکی پر دستک دینے والے کے پہلے شکوہ نما سوال پر گیا تو میں نے اسکو جواب دینے کی ٹھانی اور اسکو متوجہ کرتے ہوۓ کہا سنو وہ متوجہ ہوا تو میں نے بولنا شروع کیا کہ دیکھو تم مایوس کیوں ہوتے ہو تمہیں بہت ہی اچھے مقصد کے لئے اس دنیا میں بھیجا گیا ہےدیکھو پہلے تو تم مسلمان ہو اور حضور اکرمؐ کے امتی ہو اور پاکستان کی دھرتی کے مکین ہو تو اس نے مجھے چپ کرواتے ہوۓ بولا کیسا امتی بس نام کا امتی ہو کبھی ان کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا تو ہوا نہیں ہوں بس کیا اتنا کافی ہے کہ میں مسلمان ہوں اور حضور اکرمؐ کا امتی ہوں اس نے ایک دفعہ مجھے پھر سوچنے پر مجبور کردیا.اور بولنے لگا کہ پاکستان کا مکین ہوں لیکن کبھی ملک اور قوم کے لئے کچھ کیا تو نہیں ہے بلکہ الٹا ملک اور قوم کے لئے رسوائی کا باعث ہی بنا ہوں.اسکے ان الفاظ کا ادا کرنا تھا کہ مجھے بولنے کا موقع مل گیا تو میں نے کہا سنو ہاں تمہارا اتنا ہی کافی ہے کہ تم مسلمان ہو اور حضور اکرمؐ کے امتی ہو کیونکہ جو امتی ہے وہ ہی درد رکھتا ہے اپنے کیے گناہوں پر غمزدہ ہوتا ہے دیکھو تم غمزدہ بھی ہو اور  جستجو حیات میں بھی ہو.ملک کی  خدمت نہ کرنے  کی وجہ سے دیکھو تم شرمندہ بھی ہو  اور تم یہ بھی سوچتے ہو کہ تم نے ملک اور قوم کو کچھ دیا نہیں ہے.تو دیکھو تمہارے پاس بہت اچھا موقع ہے کہ تم اپنے اوپر لگے یہ سب داغ دھو لو اور بری الزمہ ہو کر اللہ کے سامنے پیش ہونا.اسکو کہا دیکھو تم ایک  مسلمان اور اچھے امتی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے وفادار ہونے کی حثیت سے قوم کی خدمت سر انجام دے سکتے ہو تو وہ بولا کیسے میں نے کہا دیکھو اللہ رب العزت نے تمہیں تمام نعمتوں سے نواز کر پیدا کیا ہے تو تم ان کا بہتر استعمال کرو اور اسلام و ملک کے لئے خدمات سر انجام دو.اس نے کہا میں چاہو بھی تو ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے میرے معاشرے کے لوگ نہیں جینے دیں گے.اس کے بعد وہ بہت افسردہ سا ہو گیا تو میں نے کہا تم معاشرے کی فکر چھوڑو اور صرف اپنے کام پر دھیان دو جب تم ان کی طرف دھیان نہیں دو گے تو دیکھنا وہ خود ہی شرمندہ ہوگے.وہ تھوڑا مطمئن ہوا تو میں اسکو اس کے دوسرے جواب کا دیتے ہوۓ بولا دیکھو تمھارے بغیر یہ دنیا چل سکتی ہے لیکن اس کو چلانے میں تمہارا حصہ کا کام بہت اہمیت رکھتا ہے تم کچھ بھی اچھا کرتے ہو تو  دنیا کو بہتر چلانے میں یہ تمہارے حصہ ہوگا.میرا یہ بولنا  تھا کہ وہ بولا  میں تو پہلے ایسے ہی جیے جا رہا تھا آج مجھے جستجو حیات مل کئی مجھے زندگی کا مقصد مل گیا ہے اور اب میں اسلام اور اپنے ملک کی خدمت کروں گا اور اس معاشرے کی فکر نہیں کروں گا.اس کے اس عزم نے مجھے بھی مضبوط کردیا اور اس کے ساتھ میں نے بھی اپنے جستجو حیات کی تجدید کرلی..

Comments

Popular posts from this blog

نکاح یا ذنا

قرآن پاک پڑھنے کا صحیح طریقہ علامہ اقبال کے والد محترم

اسم ’’محمدؐ ‘‘ کا احترام