Posts

Showing posts from July, 2016

شخصی کارکن اور نظریاتی کارکن کارکن

شخصی کارکن اور نظریاتی کارکن کارکن کسی بھی تنظیم,گروپ یا لشکر میں ریڑھ کی ہڈی مانند ہوتا ہے.کارکن اپنی تنظیم,گروپ یا لشکر کو فرش سے عرش تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی کارکن عرش سے فرش تک لانے میں دیر نہیں لگاتا ہے.کارکن دن رات بغیر تنخواہ معاوضہ کے اپنی تنظیم کے لیے کام کرتا ہے اور وہ کبھی بھی کسی بھی قیمت پر نہ جھکتا ہے اور نہ ہی بکتا ہے.لیکن جیسے دور بدل رہا ہے لوگ بدل رہے معاشرہ میں تبدیلی آرہی ہے اس کے ساتھ ساتھ کارکن بھی دو گروہوں میں تبدیل ہوگئے ہیں.ایک گروہ شخصی کارکن پر مشتمل ہے اور ایک نظریاتی کارکن کا گروہ ہے.اگر دیکھا جاۓ اور غور فکر کیا جاۓ تو نظریاتی کارکن سے الگ ہوکر ہی شخصی کارکن معرض وجود میں آۓ ہیں.کیونکہ جب سے مفاد پرست لوگوں نے اپنے مقاصد  کے لیے کارکن کا استعمال شروع کیا ہے تب سےتنظیم میں نظریاتی اور شخصی کارکن کی لکیر کھینچی جا چکی ہے.اب تنظیم میں شخصی کارکن صرف کسی خاص شخصیت کے لیے کام کرتا ہے اور  اس کا مقصد اس شخصیت کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے.بے شک تنظیم کا نقصان ہوجاۓ اس شخصی کارکن کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے.پہلے دور میں جب تحریکیں چلا کرتی تھی

نقش قدم

ایک آدمی کا انتقال ہوگیا اور جب اس کا کفن دفن ہو گیا تو اس کو منجھلا بیٹا تعزیت کرنے آنے والوں سے گلے لگ لگ کر روتا اور کہتا رہتا میرے والد بہت شریف بھلے مانس انسان تھے جب اس طرح ہی کرتے اس کو کافی دیر گزری تو اس سے چھوٹے بھائی نے تنگ آکر بول ہی دیا کہ بھائی جان کیوں جھوٹ بولتے ہو ساری زندگی آپ نے والد صاحب کا جینا حرام کیے رکھا اور لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ہمارے والد کیسے انسان تھے بس آپ اب اپنے منہ سے یہ الفاظ مت نکالنا اور اگر آپ کو اتنا ہی درد اور دکھ ہے تو والد صاحب کی بتائی باتوں پر عمل شروع کردیں تو ہمیں بھی یقین ہو جاۓ گا کہ ہمارا باپ شریف اور بھلے مانس انسان تھا.بس پھر کیا تھا کہ منجھلے بھائی جان نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی. یہ ہی حال ہمارا ہے کہ قائد اعظم ہو ایدھی یا  کوئی اور بھی ہو جس نے ہمیں سبق دیا ہمارے لئے اچھا کیا جب وہ اس دنیا چلا جاتا تو ہم دور چار دن اس کو یاد کرتے ہیں اور اس کہ بعد اپنی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں.ہم نے خود کو کبھی ان کے راستے پر چلانا ہی نہیں چاہا اس لئے ہی تو ہم دربدر ہوۓ پڑے ہیں.اگر ہم خود کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں تو اپنے بڑوں کے نقش قدم پ

لا تعلقی

اسلام و علیکم میری ایسے لوگ جو بیٹیوں کی عزتوں کی نیلامی پر تلے ہوۓ ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ میرے ساتھ اپنی وابستگی ختم کر لیں.کیونکہ مجھے میدان حشر جب سیدہ زاہرہؒ کے باباؐ کےسامنے پیش ہونا پڑے تو شرمندگی نہ ہو کہ میں بھی ان جاہل اور بے عقل لوگوں کا ساتھ دیتا رہا جو قرآن پاک اور آپؐ کی احادیث کو جھٹلاتے رہے اور صرف اپنے نفس اور گندے کیچڑ زدہ دماغ و دل کی تسکین کے لئے عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں. ان کو شائد معلوم نہیں کے میرے پیارے رسولؐ 1400 پہلے ہی عورت کو مرد کے برابر کے حقوق عطا کر چکے ہیں. جس کو سمجھ آجاۓ وہ عمل کرۓ اور جو بے عقلاں ہے اس کو عقل آہی نہیں سکتی. شکریہ