صوبہ سرائیکستان : تحریر۔ حبیب ادریس ایک عام پاکستانی


صوبہ سرائیکستان

میرا تعلق کہروڑپکا کے ایک زمین دار گھرانے سے ہے،مجھے بچپن سے جہاز اڑانے کاشوق تھا اس شوق کی تکمیل کےلئے ملتان فلائنگ کلب میں داخلہ لیا اور جہاز اڑانا سیکھنے لگے ،اس دوران مجھے پاکستان کے مختلف علاقوں میں جانے کااتفاق ہوالیکن جوعلاقے سب سے زیادہ مسائل زدہ نظر آئے وہ میرے وسیب کے تھے اگرچہ جہاز سے مجھے سندھ دریا ٹھاٹیں مارتا نظر آیا مجھے چناب کی لہریں آپس میں اٹھکیلیاں کرتی نظر آئیں مجھے ستلج کی اجڑی ریت ،بھڑتھئے کنارے نظر آئے ،مجھے پورا بہاولنگرویران اداس لگا،مجھے تونسہ کے وہ پہاڑ بھی نظر آئے جن کے بارے کہاجاتا ہے کہ یہ خزانوں سے پرباش ہیں، مجھے فورٹ مروکے ٹھنڈے پہاڑ اجڑے اجڑے بھی نظر آئے مجھے اپنے کھیت بھی نظر آئے ان میں کام کرتے مزدور بھی نظر آئے، قصہ مختصر مجھے میرا پورا وسیب درد کی ایک داستان نظر آیا اس داستان کوبیان کرنے کےلئے میرے پاس لفظ نہیں اگر لفظ ہوتے بھی تویہ داستان اتنی دکھی ہے کہ میں بیان ہی نہ کرسکتا لیکن پھر بھی ٹوٹ پھوٹے لفظوں کے ساتھ آپ سے ہم کلام ہوں۔
ہماراصوبے کامطالبہ ہر گز کسی سے نفرت کی بنیاد پر نہیں ہاں البتہ زوبان کی بنیاد پر ضرور ہے کہ اپر پنجاب میں جگہ جگہ اقبال پارک ایسے پارک ہوں اور میرے وسیب میں جگہ جگہ پانی کی پیاس ہوکہ گزشتہ دن پڑھ رہا تھا کہ رحیم یار خان شہرمیں تین سوکے قریب نلکے لگے ہیں جن میں سے اکثر خراب ہیں شہری لائن میں لگ کر یہاں سے پینے کاپانی حاصل کرتے ہیں یہ کتنے دکھ کی بات ہے،شہر لاہور میں کئی کئی یونیورسٹیاں ہوں کئی کئی ہسپتال ہوں میرے سرائیکی وسیب میں صرف دو یونیورسٹیاں اور صرف تین بڑے ہسپتال ہوں پھر میں چپ رہوں توایسی چپ میرے ضمیر کوجھنجوڑ رہی ہوتی ہے اور میں مزید چپ نہیں رہ سکتا ،اللہ نے مجھے سب کچھ دیا ہے، چاہوں تواپنے بچوں کابڑے بڑے ہسپتالوں سے اعلاج کرواسکتاہوں لیکن میرے کسانوں کے غریب بچے صحت اور تعلیم کی بہتر سہولیات سے محروم رہیں اور میں چپ رہوں اب زبان کٹتی ہے،میں اپنے بچوں کواعلیٰ تعلیم دلوا سکتاہوں،لیکن میرے کھیت کے مزدوروں کے بچے ٹاٹ سکولوں سے پڑھ کر صرف کلرک، کانسٹیبل اور چوکیدار بھرتی ہوں میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا، تخت لاہور کے جیسے بڑے بڑے ادارے پورےسرائیکی وسیب میں ہوں تبھی جاکر 6کروڑ سرائیکی وسیب زادے اپنے ملک اور اپنے وسیب کی محرومیاں دور کرسکتے ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب سرائیکی وسیب زادوں کا اپنا سرائیکی صوبہ ہوگا کیونکہ تخت لاہور والے سرائیکی وسیب زادوں کواپنا بھائی نہیں اپنا غلام سمجھتے ہیں شاید تبھی توہمارے غریبوں کوپیلی ٹیکسیاں اور اپنوں کوڈی سی اے سی کی نوکریاں دیتے ہیں تبھی تووہ ہمارے وسیب کوکوئی کوٹہ تک نہیں دیتے۔اب ہر سیاسی جماعت نی سرائیکی صوبہ کا نارا لگا دیا ہے اور اصل معرکہ اب شروع ہوا ہے اب دیکھتے ہیں 2018 کے الیکشن میں اس کی کون مخالفت کرتا ہے جوبھی اس اہم ایشو کی مخالفت کرے گا کھل کر سامنے آجائے گا اور میرا ایمان کہتا ہے کہ پاکستانیت کے اس اہم ایشو کی ن لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی مخالفت نہیں کرسکیں گے جوبھی مخالفت کرے گا اس کاضمیر اسے مخالفت سے روکے گا کیونکہ پنجاب کی تقسیم اب ترقی یافتہ اور متوازن اور جدید پاکستان کےلئے ضروری ہوچکی ہے اور ایک نہ ایک دن کوئی نہ کوئی محب وطن یہ کام ضرور کردے گا کیونکہ یہ پاکستان کی ترقی،بقا اور پاکستانیت کومزید مضبوط کرنے کا منصوبہ ہے اگر ملتان سے نئی تحصیل اور نئے اضلاع بن سکتے ہیں اور ڈویژن بن سکتے ہیں توپنجاب سے نیا صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟
اب لوگوں کی زمینیں اتنی تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گرچکی ہیں کہ اب کوئی جاگیردار نہیں رہا ،رہی سہی کسر پنجاب کی تقسیم سے پوری ہوجائے گی اب توجاگیردار سے زیادہ طاقتور اور ظالم سرمایہ دار ہوچکا ہے ہمیں لگتا ہے کہ وہی پنجاب کی تقسیم میں بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ وہ بھارت سے تجارت کرنا چاہتا ہے اس لئے بڑے پنجاب کووہ اپنے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے اب ملک سیاسی ٹول کے طور پر استعمال ہونے کےلئے نہیں، ماضی میں پاکستان میں بہت تجربات ہوچکے ہیں اب تجربات نہیں ملک کےلئے عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے اس کی پہلی عملی صورت پنجاب کی تقسیم ہوگی اب لاہور کے بجائے ملتان کومضبوط کرنے کی ضرورت ہے میں جدید کاشت کار کی حیثیت سے بھی یہی کہوں گا کہ اب پنجاب تقسیم نہ ہوا تو پنجاب خاص طور پر سرائیکی وسیب کی زراعت تباہ ہوجائے گی ،نہ ہمیں مکمل پانی ملتا ہے اور نہ ہی کوئی اور سہولت اب ہم خود تھک چکے ہیں یہی صورتحال رہی تو لودھراں بھی کاٹن گنگ نہیں رہے گا، یہاں گندم بھی اچھی نہیں ہوگی پھر تھل کاموٹا چنا بھی نہیں اگے گا ،گنا تو ویسے بھی زمین کو سیم اور تھور کے حوالے کر دیتا ہے اس لئے سرائیکی صوبہ کے نام اور دوسرے جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے اپنائیت اور مساوات اور بھائی چارے کی فضا کوبرقرار رکھتے ہوئے سرائیکی صوبہ بنا دیا جائے۔ سیاستدانوں کی بڑے پنجاب کے ذریعے ملک پر سیاسی قبضے کی خواہش پر ملک کامستقبل قربان نہیں کرنا چاہئے۔

Comments

Popular posts from this blog

نکاح یا ذنا

قرآن پاک پڑھنے کا صحیح طریقہ علامہ اقبال کے والد محترم

اسم ’’محمدؐ ‘‘ کا احترام