شخصی کارکن اور نظریاتی کارکن کارکن

شخصی کارکن اور نظریاتی کارکن کارکن
کسی بھی تنظیم,گروپ یا لشکر میں ریڑھ کی ہڈی مانند ہوتا ہے.کارکن اپنی تنظیم,گروپ یا لشکر کو فرش سے عرش تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی کارکن عرش سے فرش تک لانے میں دیر نہیں لگاتا ہے.کارکن دن رات بغیر تنخواہ معاوضہ کے اپنی تنظیم کے لیے کام کرتا ہے اور وہ کبھی بھی کسی بھی قیمت پر نہ جھکتا ہے اور نہ ہی بکتا ہے.لیکن جیسے دور بدل رہا ہے لوگ بدل رہے معاشرہ میں تبدیلی آرہی ہے اس کے ساتھ ساتھ کارکن بھی دو گروہوں میں تبدیل ہوگئے ہیں.ایک گروہ شخصی کارکن پر مشتمل ہے اور ایک نظریاتی کارکن کا گروہ ہے.اگر دیکھا جاۓ اور غور فکر کیا جاۓ تو نظریاتی کارکن سے الگ ہوکر ہی شخصی کارکن معرض وجود میں آۓ ہیں.کیونکہ جب سے مفاد پرست لوگوں نے اپنے مقاصد  کے لیے کارکن کا استعمال شروع کیا ہے تب سےتنظیم میں نظریاتی اور شخصی کارکن کی لکیر کھینچی جا چکی ہے.اب تنظیم میں شخصی کارکن صرف کسی خاص شخصیت کے لیے کام کرتا ہے اور  اس کا مقصد اس شخصیت کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے.بے شک تنظیم کا نقصان ہوجاۓ اس شخصی کارکن کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے.پہلے دور میں جب تحریکیں چلا کرتی تھی تو تنظیم کے سربراہ اپنے کارکنوں سےسب کچھ تہہ کرکے تحریک چلایا کرتے تھے اور ان کی تحریک کامیاب ہوتی تھی کیونکہ کارکن اپنے مفاد سے بالاتر ہو کر تحریک چلاتے تھے.لیکن اب نظریاتی کارکن محنت کرتا رہتا ہے لیکن مفاد پرست اور شخصی کارکن اس کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہتے ہیں.نظریاتی کارکن کبھی اپنی تنظیم کے نظریہ پر سمجھوتہ نہیں کرتا ہے.لیکن شخصی کارکن اپنے مفاد کی خاطر سمجھوتہ بھی کرتا ہے اور اپنا نظریہ بھی بیچ دیتا ہے.اس کی مثالیں آپ کو آج کے دور میں عام دیکھنے کو ملے گی.شخصی کارکن بھی نظریہ پر ہوتا ہے اور نظریاتی کارکن بھی لیکن دونوں میں زمین آسمان کافرق ہوتا ہے.ںظریاتی کارکن اپنی جان جوکھم میں ڈال کر تنظیم کے بھلائی اور معاشرے کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہے.اور ہمیشہ خود سے زیادہ اسکو اپنی تنظیم  اس کے سربراہ کی عزت اور وقار عزیز ہوتا ہے.لیکن شخصی اور مفاد پرست کارکن ان سب چیزوں کو بلاۓ تاک رکھتے ہوۓ سب کا سودا کردیتا ہے.آپ دیکھ سکتے کہ روز ہزاروں تحریکیں چلائی جاتی ہیں لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہوتی ہے کیونکہ ان تحریک چلانے والوں کو اور اس تحریک میں کلیدی کردار ادا کرنے والوں نے اپنے مفاد اس سے جوڑ لیے ہوتے ہیں جس وجہ سے وہ ناکام ہو جاتے ہیں اور اس وجہ سے نطریاتی کارکن کی قدر کم سے کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ وہ بغیر کسی صلہ کے کام کرتا لیکن لوگ اس کو کام کرنے نہیں دیتے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے جس وجہ سے اس کی جگہ مفاد پرست ٹولہ لے لیتا ہے.اور ایک تنظیم اپنے وفا دار سے محروم ہوجاتی ہے.اور ترقی سے پستی کا سفر ہوتا ہے کسی بھی تنظیم کا کہ جب اس کا وفادار کارکن اس سے پیچھے ہٹ جاۓ.کسی بھی تنظیم کے سربراہ کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ اپنے نظریاتی کارکنوں کو یکجان رکھے اور کیونکہ وہ ان کی وجہ سے مضبوط اور کامیاب ہے. مفاد پرست اور شخصی کارکنوں سے التجا ہے کہ خدارا معاشرے پر رحم کھائیں اور اپنی عزت و وقار بنائیں.
نوٹ. ان باتوں سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا آپ پر منحصر ہے کیونکہ یہ باتیں میں نے معاشرے سے سیکھی اور اپنی صلاحیت کے مطابق آپ تک پہنچادیں.شکریہ

Comments

Popular posts from this blog

نکاح یا ذنا

قرآن پاک پڑھنے کا صحیح طریقہ علامہ اقبال کے والد محترم

اسم ’’محمدؐ ‘‘ کا احترام